خیبر پختونخواہ میں ہر جگہ کام کرنے والی خواتین کو ہراساں کیا جانے لگا،ایسے کیس ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہیں لیکن رپورٹ نہیں ہو پاتے
سوات خیبرپختونخواہ میں ہراسگی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔خواتین کے لئے کسی بھی شعبے میں کام کرنا آسان نہیں رہا، ہر جگہ انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔اسی طرح کا ایک واقع سوات میں پیش آیا جہاں ایک خاتون کو ایک سرکاری دفتر میں ہراساں کیا گیا۔خاتون نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ یہ واقع تب پیش آیا جب میں نے پبلک سروس کمیشن کا ٹیسٹ پاس کیا اور میری پوسٹنگ ہونے والی تھی۔
خاتون نے بتایا کہ اس وقت اس کا نکاح ہو چکا تھا۔بات کرتے ہوئے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا گیا کہ جب میں اپنا پوسٹنگ لیٹر لینے کے لئے گئی تو میرے ساتھ جو سلوک کیا گیا اسے دیکھ کر میں حیران ہو گئی۔جب میں پوسٹنگ لیٹر لینے گئی تو وہاں بیٹھے سیاسی افسر نے مجھ سے کہا کہ اگر یہ لیٹر لینا ہے تو اس کی قیمت ادا کرنی ہو گی۔
جب میں نے پوچھا کہ کیا قیمت تو جواب ملا کہ “یا توپیسے یا جسم”۔
خاتون نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بات سن کر وہ پریشان ہوئی اور وہاں سے چلی گئی۔خاتون نے ہمت نہ ہاری اور ہمت سے کام لیا۔سوات میں پوسٹنگ نہ ہو سکی اور اس کی پوسٹنگ سوات سے دور ضلع دیر میں ہو گئی۔متاثرہ خاتون نے بتایا کہ میں خوش تھی کہ پوسٹنگ اگر دور بھی ہوئی ہے تو کوئی بات نہیں، با عزت طریقے سے تو ہو گئی ہے۔لیکن ایسا کہاں ممکن تھا، ضلع دیر میں جب میں گئی تو وہاں اور بھی مشکل حالات تھے۔
کلرک سے لے کر ڈاکٹروں تک، ہر شخص نے مجھے ہراساں کرنے کی کوشش کی ۔خاتون بے بس ہو گئی تھی، اسے سمجھ نہیں آیا کہ کس سے بات کرے، والد فوت ہو چکے تھے اور والدہ کچھ نہیں کر سکتی تھیں۔لہذا اس نے اپنے شوہر سے بات کرنا مناسب سمجھا اور جب اس خاتون نے شوہر سے بات کی تو شوہر نے اسے نوکری چھوڑنے کا کہااور جب خاتون کی جانب سے کہا گیا کہ نوکری چھوڑنا کسی چیز کا حل نہیں تو خاوند نے بھی اسے طلاق دے دی۔اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے عورت فاونڈیشن کی صوبائی مینجر کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ خواتین کو ہر جگہ ہراساں کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ کام کرنے والے مرد ہر وقت ایک ایسے موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کب خواتین ان کے ہاتھ آئیں