172

لشکر کا جھنگ

محمد حسن معراج 

جھنگ کی زرخیزی کو وقت کے علاوہ بھی کوئی کلر چاٹ رہا ہے۔ جس مٹی سے صوفی سرشار ہوئے ، وہاں قبروں کے کتبے اکھاڑنے کی نوبت کیونکر آئی؟

یہ شہر جیسا تھا ویسا کیوں نہیں رہا اور جیسا ہے ویسا کیوں ہے، اس سوال کے جواب میں اور بھی بہت سے جواب پوشیدہ ہیں۔ جھنگ کی کہانی حقیقت میں وہ کہانی ہے جس میں مسافروں کے مارے جانے سے سیاحوں کی گردن کاٹنے تک کے سب اسباب مضمر ہیں۔

بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسا اس وقت شروع ہوا جب ظلمت کا راج اپنے آپ کو اسلام کی ضیاء ثابت کرنے پہ بضد تھا۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ یہ سب امریکہ کا کیا دھرا ہے۔

کچھ اسے یہودیوں کی سازش کہتے ہیں اور کچھ سارا حساب ہندوستان کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ سچ کا سفر مشکل بھی ہے اور تکلیف دہ بھی۔

تعصب کی عینک اتار کہ دیکھا جائے تو پتہ لگتا ہے کہ پاکستان بننے کے ساتھ ہی مذہب کے نام پہ دکان سجانے والوں کو کھلی چھٹی مل گئی۔ وہ لوگ جو اس ملک کے وجود کے خلاف تھے ، ملک بنتے ہی اس قدر طاقت ور ہو گئے کہ جب چاہتے قرارداد مقاصد کی بحث چھیڑ دیتے اور جسے چاہتے، اسمبلی میں بلا کر خارج از اسلام قرار دے دیتے۔

ہیر سیال اور سلطان باہو کی شناخت سے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کے تعارف تک جھنگ پہ بھی ایک قیامت گزری ہے ۔

کچھ وقائع نگار ، یہاں آباد اہل تشیع کا سلسلہ اس وقت سے جوڑتے ہیں جب عمرو بن حفص جھنگ کے حکمران ہوئے اور کچھ روائیتیں اسے ملتان میں قائم ہونے والی اسماعیلی حکومت کا عمل دخل کہتی ہیں۔ مگر یہ بات مصدقا کہی جاتی ہے کہ جب محمود غزنوی نے یہاں کے مقامی حکمرانوں کو شکست دی تو شاہی مورخ نے اسے اسلام کی فتح قرار دیا۔

انگریز دور میں نہریں کھدیں اور آباد کاری کی غرض سے زمینیں بانٹی گئیں تو جھنگ میں مسلک کی ترتیب یہ ٹھہری کہ زمیندار زیادہ تر اہل تشیع تھے اور مزارعہ جات زیادہ تر اہل تسنن ۔ اب اسے بریلوی مکتبہء فکر کی وسعت قلبی کہئے یا معاشیات کے داؤ پیچ، شہر میں تعزیوں کے تمام اجازت نامے آج بھی انہی سنیوں کے پاس ہیں۔

پاکستان بنا تو ہندوستان سے لٹے پٹے مہاجرین، جھنگ بھی پہنچے۔ روہتک ، حصار، گڑگاؤں اور پانی پت سے آئے ان لوگوں کی بڑی تعداد دیو بند مکتبہ ء فکر کی تھی۔

نئی زندگی کے آسرے پہ آنے والے سامان تو چھوڑ آئے تھے مگر نئے ملک کے خواب اور پرانے عقیدے کی اصلاح ساتھ لانا نہیں بھولے تھے۔

الاٹمنٹوں اور کلیموں کا چکر چلتے ہی ملک کا آدرش تو کہیں دور بہہ گیا، عقیدے کا آنکڑا البتہ مضبوط تھا سو اس نے تارکین وطن کو باندھے رکھا۔ چونکہ ہر ہجرت کرنے والا اپنی غریب الوطنی کا تریاق اپنے عقیدے میں ڈھونڈھتا ہے، سو دیار غیر میں گھر آباد ہو نہ ہو ، عبادت گاہیں ضرور آباد ہو جاتی ہیں۔

ٍ دس بارہ برس گزرے تو تبدیلی رنگ دکھانے لگی۔ جھنگ میں آنے والے دیوبند ی پہلے سے آباد بریلویوں کی رواداری کو تشکیک کی نگاہ سے دیکھتے اور انہیں گاہے بہ گاہے عقیدے کے راسخ ہونے کی تنبیہ کرتے۔

یہی وجہ ہے کہ جھنگ میں سب سے پہلا مناظرہ دیو بندی اور بریلوی مسلک کے علما کے درمیان ہوا۔ پچاس کی دہائی کے اولین سالوں میں جھنگ میں پہلی بار ایک دیوبندی عالم نے بر سر منبر، زمینداروں کو جاگیردار اور شیعہ ہونے پہ برا بھلا کہا۔

ایک ترکش سے تیر چلا تو دوسری کب خاموش رہتی سو 1957 کے اکتوبر میں ایک نواحی گاؤں ، حسو بلیل میں مقامی زمیندار نے بھی جھنگ کی تاریخ میں پہلی بار ایک صحابی کی بے حرمتی کی۔

ان واقعات کے رد عمل کے طور پہ مجلس تحفظ ناموس صحابہ نامی ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا۔ چند سال تو امن سے گزرے مگر پھر 1964 میں پہلی بار فرقہ کی قربان گاہ پہ انسان کا خون بہا۔

شور کوٹ کے اس مقتول کا تعلق سنی مسلک سے تھا مگر سنی ہونے سے پہلے وہ ایک انسان اور مسلمان تھا ۔ تین سال کے وقفے کے بعد دوبارہ روڈو سلطان میں ایک اور سنی مولوی کو قتل کر دیا گیا جو انسان بھی تھا اور مسلمان بھی۔

بظاہر یہ سب محرم کی آمد کے ساتھ شروع ہوتا اور محرم کے رخصت ہوتے ہی ختم ہو جاتا مگر کچھ تھا جو بدلتا جا رہا تھا۔ شہر کی مجلسی زندگی آہستہ آہستہ تلخیوں کی نذر ہوتی جا رہی تھی۔ ندی نالوں کی طغیانی بڑھی تو دریا میں سیلاب آ ہی گیا۔ جھنگ کے لوگ اسے باب عمر کے واقعہ سے یاد کرتے ہیں ۔

شہر میں داخل ہونے والا ایک دروازہ کھیوا گیٹ کہلاتا تھا جو صاحباں کے باپ سے منسوب تھا ۔ شہر کی روائت تھی کہ ہر سال محرم کی سات کو اس دروازے سے ماتمی جلوس گزرا کرتا۔

اول اول اس دروازے کا نام بدلا گیا اور پھر مصلحت کا تقاضا یہ ٹھہرا کہ جلوس راستے میں واقع مساجد کے سامنے پہنچ کر نوحہ خوانی سے گریز کرے گا ، بس روائت کے طور پہ خاموش ماتم کیا جائے گا۔

مارچ 1969 کا محرم آیا تو انتظامیہ نے فسادات کے پیش نظر اطراف سے ضمانت لی کہ کوئی مشتعل بیان نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی ایسی کوئی حرکت ہو گی۔ مگر چھ محرم کی شام کو جلوس کے راستے پہ واقع ایک مسجد پہ چند اشتعال انگیز کلمات آویزاں نظر آئے۔

انتظامیہ نے بیچ بچاؤ کروایا تو تصفیہ کی یہ صورت نکلی کہ متنازعہ تحریر پہ اس وقت تک کپڑا پڑا رہے گا جب تک جلوس گزر نہیں جائے گا۔ مگر جب جلوس اس راستے سے گزرا تو کسی نے وہ کپڑا ہٹا دیا اور عبارت واضح کر دی۔ جلوس کے شرکا ء میں سے ایک نے آلودہ کپڑا اٹھایا اور اس عبارت پہ پھینک دیا۔

کہتے ہیں کہ اگر اس دن یحییٰ خان کا مارشل لاء نہ لگتا تو مرنے والوں کی تعداد چھ سے کہیں زیادہ ہوتی۔

مگر اس وقت تک یہ سب کچھ صرف مذہبی فرقہ واریت نہیں تھی۔ عبارت واضح کرنے والا محمد ارشد اور آلائش پھینکنے والا اشرف بلوچ دونوں ہی ایک مقامی سیاسی رہنما کے ملازم تھے جو مسلک کے اعتبار سے شیعہ تھا۔

برسوں بعد اس سیال رہنما کے پوتے نے بتایا کہ اس کے دادا سن 1969 کے الیکشن میں کرنل عابد حسین سے اپنی شکست کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ برادری کی سیاست کے علاوہ اس میں مقامی سرمایہ دار بھی شامل رہے جو مذہب کی خدمت اپنے مسلک کو چندہ دے کر کرتے رہے۔

انتخابات ہوئے تو جھنگ کی روائتی سیاست کا پانسہ پلٹ چکا تھا۔ باب عمر کے فسادات میں مارے جانے والوں کی بیوائیں ، جب سیاہ لباس پہن کر جھنگ کی گلیوں میں آئیں تو جھنگ کے سبھی باسیوں نے سنیوں کے حق میں ووٹ ڈالا۔

ان تمام باتوں کے باوجود 1974 سے پہلے پہلے شیعہ سنی اختلاف پس منظر میں ہی رہا، کیونکہ اس وقت تک دونوں اطراف کے مسلمان ، احمدیوں کے خلاف جنگ میں مصروف تھے۔

مگر جونہی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا ، شعلہ بیان خطیبوں کی تمام توپوں کا رخ اہل تشیع کی طرف ہو گیا۔ مذہب کے ان محافظوں کے پاس جو فہرست تھی اس میں قادیانیوں کے بعد اسلام کو اگلا خطرہ شیعوں سے تھا

اس دوران دو باتیں ہوئیں۔ اول تو یہ کہ شیعہ زمینداروں کا تصرف آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو گیا۔ نسل در نسل تقسیم ہوتی زمین اور زمین سے پھوٹتے وراثت کے جھگڑوں نے جاگیر داروں کے دائرہ اختیار اور معمولی کسانوں کے روزگار پہ گہری ضرب لگائی سو زمین سے رزق اگانے والے آس پاس کے شہروں کا رخ کرنے لگے۔

دوسری بات یہ ہوئی کہ خلیجی ممالک نے پاکستانیوں کے لئے معاش کے سلسلے دراز کر دئیے۔ ملک میں پھیلتے ہوئے خالی ہاتھ اور باہر سے آنے والوں ہاتھوں پہ دو دو گھڑیاں دیکھ کر جھنگ والوں کی وسیع تعداد نے بھی عرب ممالک کا رخ کیا۔ جانے والے جب واپس آئے تو ساتھ میں عقیدے کا زر مبادلہ اور عربی کی عجمی سے نفرت بھی لیتے آئے۔

یہی وہ دور تھا جب پاکستان سے جمہوریت خارج ہوئی اور ایران میں انقلاب داخل ہوا۔ ادھر مسجد، منبر اور مسند پہ فقہء حنفیہ کی حکمرانی ہوئی اور ادھر خمینی فقہ جعفریہ کا علم تھام کر نکلے۔

ایران کے انقلاب نے عرب ممالک کو تو خوفزدہ کیا ہی، پاکستان کے اہل تشیع میں بھی سیاسی بیداری کی نئی لہر پھونکی۔ پہلے پہل فقہ جعفریہ کے نفاذ کی تحریک بنی اور پھر آہستہ آہستہ اس کے لب ولہجہ میں تبدیلی آنے لگی۔

جب حکومت نے فقہ حنفی کی بنیاد پہ زکوۃ کا قانون نافذ کیا تو شیعہ حضرات نے بھی حکومت کو تین دن میں دھرنا دے کر اس بات پہ آمادہ کر لیا کہ شیعہ شرعی مسائل کو شیعہ شریعت کی رو سے حل کیا جائے گا۔ نجف اور قم سے آئے ہوئے علماء نے ان عقائد کا بپتسمہ کرنا شروع کر دیا جن کو برصغیر کی مٹی نے آلودہ کر دیا تھا۔ پاکستان کے مسلمانوں کو پہلے عربیوں نے مذہب سکھایا اور رہی سہی کسر عجمیوں نے پوری کر دی۔

ایران۔عراق جنگ چھڑی تو کہنے سننے والوں کو کھلی آزادی مل گئی۔ درآمد شدہ نفرتوں کی پیروی میں سنی مولوی اور شیعہ علّاماؤں نے ان تمام روایات کو دیس نکالا دے دیا جن سے جھنگ کے وجود میں روشنائی تھی۔

پھر اسی شہر میں حق نواز جھنگوی نے انجمن سپاہ صحابہ کی بنیاد رکھی۔ 1985 میں پپلاں والی مسجد میں بنائی گئی یہ تنظیم جس کے آٹھ میں سے پانچ بنیادی مقاصد اہل تشیع کو خارج از اسلام قرار دلوانا تھے، آہستہ آہستہ سپاہ صحابہ کے نام سے مقبول ہونا شروع ہو گئی۔

صحابہ کے نام پہ قائم کی گئی اس انجمن کا بنیادی مقصد تو ایک مخصوص مذہبی نظریے کو فروغ دینا تھا مگر ہر وہ شخص جو اس کی زد پہ آیا اسے مذہب کے ساتھ ساتھ جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ سیاسی سوچ کی یک رخی، مدرسوں کے پھیلتے ہوئے جال، عقیدے اور سرمائے کی پیوستگی اور برادریوں کی خانگی کشمکشوں سے سپاہ صحابہ کو تیزی سے پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔

ان سپاہیوں کی امداد کرنے والوں میں حجاز کے مسلمانوں سے دیو بند کے معتقد وں تک سب اہل ایمان شامل تھے۔ کونے کونے پہ کھلنے والے مدارس کے ذریعے معصوم ذہنوں کو پہلے تعصب پہ پالا جاتا اور پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے افغانستان بھیجا جاتا جہاں طالبان دور میں چلنے والے کیمپوں میں یہ لوگ اپنے سچ سے محبت میں مبتلا ہوتے۔

مذہبی پیشواؤں سے سیاسی رہنماؤں تک کسی میں اتنی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ فرقے کی جنگ سے بچوں کو دور رکھیں۔ کئی سال تک ملک کے اندر حکومت انہیں اپنا تزویراتی اثاثہ (Strategic Asset) جانتی اور ملک سے باہر اسلامی ریاستیں ان کی اعانت کرتیں۔

کچھ تو ایوانوں کے ذہن میں انقلاب کا اندیشہ کلبلاتا تھا اور کچھ پڑوس میں جاری دیوبندی جہاد کی مجبوریاں پیش نظر تھیں، سپاہ صحابہ اس پیڑ کے سائے میں تیزی سے بڑھتی رہی جسے پاک سر زمین میں اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے۔ نفاذ شریعت کے نعروں میں چھپی فرقہ واریت صاف سنائی دیتی تھی مگر شائد کوئی ان آوازوں کو سننا ہی نہیں چاہتا تھا۔

جب احسان الہٰی ظہیر، عارف الحسینی اور حق نواز جھنگوی ایک کے بعد ایک کر کے قتل ہوئے تو جھنگ میں شیعہ سنی فساد اپنے عروج کو پہنچ گیا۔ 1993 میں سپاہ محمد قیام میں آئی تو جواباً 1994 میںلشکر جھنگوی کے نام سے بھی ایک تنظیم تشکیل دی گئی۔

سلطان باہو اور چندر بھان کے جھنگ کی گلیاں اب میدان جنگ کی صورت پیش کرتی تھیں اور ہیر کے شہر کی دیواروں پہ لکھے نعرے رزمیہ داستان کا منظر پیش کرتے۔ اس دوران قران کی آئتیں پکارتی رہیں کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔

حرم کے آس پاس، جہاں سے شکار کھیلنے والے شہزادے آتے اور مدارس کو بھاری چندے دے جاتے، کہیں آخری خطبہ کے الفاظ بھی سنائی دیتے کہ تمہاری جان، مال اور عزت کی ایک دوسرے پہ ویسی حرمت ہے جیسی اس دن، اس مہینے اور اس شہر کی۔ مگر مذہب کے جنون میں اتنا ہوش کسے ہوتا کہ آئتوں اور خطبوں پہ دھیان دیتا۔

خاک اور خون کے اس کھیل میں جہاں فرقہ واریت ایک ناسور ہے، وہیں سیاست کے تماشے میں یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے بغیر جمہوریت کی جنگ جیتی تو کیا، لڑی بھی نہیں جا سکتی ۔

پیپلز پارٹی جیسی دائیں بازو کی جماعت ہو یا روشن خیالی کا نعرہ مستانہ لگانے والی ق لیگ، مملکت خداداد کی تمام حکومتیں کہیں نہ کہیں اس بیساکھی کا استعمال ضرور کرتی ہیں ۔

ملک کے سب سے روشن خیال دور میں بھی طالبان کو اپنا ہیرو ماننے والے سپاہ صحابہ کے اعظم طارق نے الیکشن تو جیل سے لڑا مگر پھر ظفر اللہ جمالی کو ایک سیٹ کی برتری دلوانے کے لئے پارلیمان لائے گئے۔

جھنگ کے اس ممبر اسمبلی نے پارلیمان میں پہنچنے کے بعد اہم اعلان یہ کیا کہ پاکستان کے 28 منتخب شہروں کو افغانستان کے شہروں کی طرز پہ بدلا جائے گا اور وہاں ٹیلی ویژن، سینما اور موسیقی کی مکمل ممانعت ہوگی۔

ہر الیکشن کی طرح اس بار بھی شہر کی چھتوں پہ جابجا مخصوص جھنڈے نظر آئے۔ فرقے کے نام پہ ڈالے گئے ووٹ اسمبلی کی نشست تو نہ لا سکے مگر ووٹ گننے والے بتاتے ہیں کہ لگ بھگ ستر ہزار لوگ اب بھی کچھ ایسا ہی سوچتے ہیں۔

عقیدے کی اس جنگ میں عموما دونوں اطراف کے عام عقیدت مند مرتے ہیں جو شیعہ اور سنی ہونے کے علاوہ ڈاکٹر، انجینئر، وکیل اور استاد بھی ہوتے ہیں۔ ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ اندھا دھند فائرنگ اور بم دھماکوں سے نہ تو امام بارگاہیں بچتی ہیں اور نہ مساجد ۔

گھر میں ٹی وی اور سڑک پہ بل بورڈ دیکھیں تو لگتا ہے کہ معاشرہ، مذہب کی مکمل گرفت میں ہے مگر دھماکے سے اٹی خبریں اور خون میں لت پت اخبار بتاتا ہے کہ انسان اب بھی سلامتی ڈھونڈھتا ہے۔

علمدار روڈ پہ بم پھٹے یا چلاس میں قمیضیں اتروا کر لوگوں کو مارا جائے، لشکر جھنگوی جب بھی کسی واقعے کی ذمہ داری قبول کرتا ہے، جھنگ کے لوگ معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں، مگر آہستہ آہستہ جب لوگ اسے بیرونی سازش کہہ کر ہمسایہ ممالک کی طرف انگلیاں اٹھانا شروع کر دیتے ہیں تو وہ بھی اس فرض کفایہ سے تقریبا بری الزمہ ہو جاتے ہیں۔

رہی بات روائت کی، تو ہیر، سلطان، چندر بھان اور عبدالسلام آج کے جھنگ میں رہتے بھی تو لشکر والے انہیں کہاں زندہ چھوڑتے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں