مجید امجد مرحوم سے میری طویل دوستی رہی۔ روزنامہ نوائے وقت میں ملازمت ملی، تو مجھے ساہیوال چھوڑ کرملتان منتقل ہونا پڑا جہاں میں نے ۳۵برس گزارے ہیں۔ اب تین برس سے واپس اپنے پرانے آشیانے (ساہیوال) میں مقیم ہوں۔
میاں مجید امجد جہاں معروف و باکمال شاعر تھے، وہیں وہ محکمہ خوراک کے ایک دیانت دار اور درویش صفت افسر بھی رہے۔ یہی نہیں وہ دوستوں کے دوست اور دشمنوں پر بھی مہربان انسان تھے۔دفتر میں ان کے کئی ساتھی بعد میں کروڑ پتی بن گئے، لیکن انھوں نے کبھی سرکاری گندم کا بلا قیمت ایک دانہ تک اپنے گھر میں داخل نہ ہونے دیا۔
میاں مجید امجد جھنگ کے ایک متوسط آرائیں برادری کے سپوت تھے۔ ان کے والد نے مجید امجد کی والدہ کے انتقال کے بعد دوسری شادی کر لی تھی۔ ان کے دو سوتیلے بھائی بھی تھے۔ بعدازاں جھنگ کی ایک معلمہ سے آپ کی شادی ہوئی۔ آپ کی ایک بیٹی بھی تھی۔ مرحوم قریباً ساری عمر منٹگمری (اب ساہیوال) میں رہائش پذیر رہے۔ جبکہ ان کی بیگم اپنی بیٹی سمیت جھنگ ہی میں رہی۔
مجید امجد ہر عید کا دن ساہیوال میں گزارتے۔ عید کے دوسرے دن وہ اپنی بیگم اور اکلوتی بیٹی کے پاس جھنگ چلے جاتے۔ ایک یا دو دن رہ کر واپس ساہیوال آتے۔ بیگم اور بیٹی نے آپ کی زندگی میں ایک بار بھی ساہیوال آنا پسند نہ کیا۔ جب مجید امجدکا انتقال (۱۹۷۴ئ) میں ہوا، تو ان کی میت بذریعہ ٹرک جھنگ بھیج دی گئی۔ وہ مقامی قبرستان میں دفن ہیں۔ ان کی تربت پرانہی کا ایک معروف شعر تحریر ہے۔ ؎
کٹی عمر بہاروں کے سوگ میں امجد
میری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول
ساہیوال میں آپ کی جائداد فرید ٹائون میں ایک ڈی طرز کے کوارٹر اور ایک پرانا ریلے بائسیکل پر مشتمل تھی۔ یہ سائیکل انھوں نے کئی برس پہلے اس وقت خریدی جب محکمہ خوراک کی وساطت سے ملازمین کو پرمٹ پر ایک سو روپے کے عوض ملتی تھی۔ یہ شروع سے لے کر آخر تک بغیر کیرئیر میاں مجید امجد کے ہم رکاب رہی۔ آپ جب محکمہ خوراک کے انسپکٹر بن کر ساہیوال آئے، تو پاکستان عالم وجود میں نہیں آیا تھا۔ اس دور میں محکمہ سول سپلائز کہلاتا۔ شہریوں کو چینی و آٹا یا گندم حاصل کرنے کے لیے وہیں سے راشن کارڈ بنوانے پڑتے۔یہی محکمہ لوگوں کو راشن بھی فراہم کرتا۔
اس دور میںساہیوال کی آبادی کم وبیش ایک لاکھ نفوس سے بھی کم تھی۔ زیادہ تر لوگ ہندو یا سکھ تھے۔ اس طرح اکثر دکانیں غیر مسلموں ہی کی تھیں۔ صرف چند دکانیں مسلمانوں کی ہوا کرتیں۔ مسلمان دکانداروں کو جب اس بات کا علم ہوا کہ محکمہ سول سپلائز میں ایک مسلمان بطور انسپکٹر آیا ہے، تو انھوں نے میاں مجید امجد کا شاندار استقبال کیا۔ ان کے اعزاز میں عصرانہ بھی دیا گیا۔
جب پاکستان بنا، غیر مسلم اپنے گھر اور دکانیں چھوڑ کر بھارت چلے گئے۔ تب ساہیوال کے پہلے ڈپٹی کمشنر، راجا حسن اختر نے مجید امجد کو بطور عارضی اسپیشل مجسٹریٹ غلہ منڈی کی متروکہ دکانیںمہاجرمسلمانوں میں الاٹ کرنے کے اختیارات تفویض کیے۔ مجید امجد نے دکانوں کی الاٹ منٹ کے دوران نہایت ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیے۔وہ اسی دور میں نیک نام اور اعلیٰ افسر قرار پائے۔
محکمہ خوراک ساہیوال کے دفتر کا ایک چپراسی مجید امجد کے ساتھ ان کے گھر میں بلا کرایہ برسوں تک رہا۔ وہ اس چپراسی کے خورو نوش کا خرچہ خود برداشت کرتے رہے۔ مجید امجد عموماً دوپہر کے وقت کیفے ڈی روز آ جاتے۔ وہاں ایک روٹی یا ڈبل روٹی کے دو ٹکڑے اور دو شامی کباب خرید کر تناول فرماتے۔ یوں وہ صرف تین روپے میں ظہرانہ کر لیا کرتے۔ شام کے وقت اسٹیڈیم ہوٹل میں اپنی مخصوص محفل سجایا کرتے۔ رات کا کھانا بھی وہیں کھاتے۔
آپ کی زندگی میں پریشانیوں اور تکالیف کا دور اس وقت شروع ہوا جب ملازمت سے ریٹائر ہونا پڑا۔ معمولی رقم پاس تھی۔ جھنگ میں آبائی جائداد پرچھوٹے سوتیلے بھائی قابض تھے۔ وہاں انھیں بہت کم لوگ جانتے پہچانتے تھے۔ انھوں نے اپنی وراثتی جائداد کے حصول کی خاطر جھنگ میں دعویٰ دائر کر رکھا تھا۔ پیروی کے لیے انھیں ہر تاریخ پیشی پر جھنگ جانا پڑتا۔ اِدھر حصول پنشن کی خاطرساہیوال کے دفاتر میں چکر لگانے پڑتے۔
اسی بھاگم دوڑ میں وہ سانس کے مرض میں مبتلا ہو گئے۔ پس انداز کی گئی رقم قریباً ختم ہونے والی تھی۔ وہ پھر چھوٹے موٹے ہوٹلوں سے کھانا کھانے لگے۔ ان کی صحت پہلے ہی کمزور تھی، ناقص غذا کھانے سے وہ دن بدن کمزور ہوتے چلے گئے۔ مجید امجد بلا کے خود دار تھے۔ کسی دوست کو اپنی پریشانیوں کا ذکر تک کرنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ آخر کار اس قدر نحیف ہو گئے کہ بائیسکل چلانا بھی ممکن نہ رہا۔ بیماری کے اس عالم میں بھی دعویٰ کی پیروی کے لیے جھنگ جانا پڑا۔ دریں اثنا آپ کی بیگم کی بینائی قریباً ختم ہو گئی۔ یہ مرحوم کے لیے ایک اور صدمہ تھا۔
بینائی چلے جانے کے حادثے سے وہ خود بھی دوچار ہو چکے تھے۔ وہ یوں کہ قیام پاکستان سے قبل جب وہ ساہیوال میں ملازمت کر رہے تھے، انھیں شدید بخار ہوا۔ اس دور میں بخار کا موثر علاج کونین مکسچر دوا ہوتی تھی۔ ڈاکٹر نے کونین مکسچر کی ایک شیشی بھر کر انھیں دی اور بتایا کہ یہ دوائی ۶خوراکوں پر مشتمل تین دنوں کے لیے ہے۔ مجید امجد جب واپس گھر آئے، بخار شدت اختیار کرچکا تھا۔ آپ نے نیم بے ہوشی کے عالم میں کونین مکسچر کی بھری ہوئی شیشی منہ کو لگالی۔ کڑوی ہونے کے باوجود شیشی کو اسی وقت منہ سے علیحدہ کیا جب دوا ختم ہو گئی۔
کونین کی تاثیر نہایت گرم تھی۔ جب صبح بیدار ہوئے تو انھیں بخار تو نہ تھا لیکن آنکھوںکی ۸۰فیصد بینائی جا چکی تھی۔ خوش قسمتی سے بروقت علاج کرانے پر بینائی کافی حد تک واپس آ گئی۔ لیکن آنکھوںسے موٹے شیشے والی عینک کا رشتہ ہمیشہ کے لیے جڑ گیا۔ پاکستان معرض وجود میں آیا،تو محکمہ سول سپلائز کا نام تبدیل کر کے محکمہ خوراک رکھا گیا۔ تب مجید امجد اسٹنٹ فوڈ کنٹرولر بن گئے۔ برسوںتک اسی عہدے پر فائز رہے۔ محکمہ خوراک کے اعلیٰ حکام نے انھیں متعدد بار ڈسٹرکٹ فود کنٹرولر کے عہدے کی پیش کش کی… شرط یہ تھی کہ انھیں ساہیوال چھوڑنا ہو گا۔ مگر مجید امجد نے ساہیوال سے کسی دوسرے ضلعی صدر مقام جانا پسند نہ کیا۔ وہ کہا کرتے تھے ’’ساہیوال جیسا شہر کوئی اورنہ ہو گا۔‘‘
تب ساہیوال میں ہر طرف بڑے بڑے سرسبز درخت اور صاف ستھری اور کشادہ سڑکیں تھیں۔ وہاں کوئی کارخانہ تھا نہ ہی چمنیوں سے اٹھنے والا زہریلا دھواں۔ شور شرابہ اور نہ ہی ٹریفک کاغل غپاڑہ۔ دریا کی طرح لمبی چوڑی نہر، لوئر باری دو آب بہتی جس کے دائیں جانب عدالتیں، دفاتر، کالونیاں اورکھیلوں کے میدان واقع ہیں۔ بائیں جانب غلہ منڈی، تجارتی ادارے اور بسوں و ویگنوں کے اڈے ہیں۔ ایک بار آپ کا تبادلہ اوکاڑہ کر دیا گیا تھا۔ وہ ساہیوال سے صبح اوکاڑہ جاتے اور شام کو واپسی ہوتی۔ ایک سال بعد محکمہ کے حکام نے مجید امجد کی حالت پر رحم کھاتے ان کا دوبارہ تبادلہ ساہیوال ہی کر دیا۔ مجید امجد کی میت ساہیوال میں سپرد خاک ہونی چاہیے تھی۔ جھنگ میں تو انھیں کوئی جانتا تک نہ تھا۔
مجید امجدنے عمر کے آخری حصے میں اپنا وراثتی اثاثہ حاصل کرنے کے لیے مقدمہ دائر کیا تھا۔ شومئی قسمت، نہ آبائی جائداد ملی اور نہ ہی پنشن ان کا مقدر بن سکی۔ انھوں نے ساری زندگی ایک درویش، صابر، خوددار اور قناعت پسند انسان کے روپ میں گزار دی۔ ان جیسا اصول پسند انسان آج کے زمانے میں شاید ہی مل سکے۔
(مضمون نگار روزنامہ نوائے وقت، ملتان سے بطور سینئر اسٹاف رپورٹر اور سب ایڈیٹر منسلک رہ چکے ہیں)