مشتاق احمد یوسفی نے لاہور کی گلیوں کی تنگ دامنی پر جو بات رقم کی تھی وہ اپنی جگہ معتبر سہی لیکن شاید وہ جھنگ کی سڑکوں سے انجان تھے ورنہ وہ ان سڑکوں کے بارے میں حتمی رائے قائم کرتے ہوئے انھیں کسی عجوبے سے کم قرار نہ دیتے جھنگ شہر کی ہر سڑک اپنی مثال آپ ہے کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ابن بطوطہ کا گزر جب جھنگ شہر سے ہوا تھا تو اس نے بھی اس شہر کی سڑکوں کو دیکھ کر حیرانی کا اظہار کیا تھا مورخ بتاتے ہیں کہ کسی زمانے میں یہاں پر ٹریفک کے سگنلز بھی نصب کیے گئے تھے چونکہ اہل جھنگ کسی دستور اور منشور کو نہیں مانتے اس لیے ان کی آسانی کی خاطر ان سگنلز کو ختم کردیا گیا ہے ۔اگر آپ نے اس شہر کی سڑکوں کو نہیں دیکھا تو آپ کو سمجھانے کے لیے یہ بتا دینا کافی ہے کہ اتنی مشکل تو ایک بوڑھے درزی کو سوئی میں سے دھاگا گزارنے میں نہیں ہوتی جتنی مشکل جھنگ کی سڑکوں پر سے گاڑی گزارنے میں ہوتی ہے۔ جھنگ شہر نے وقت کے ساتھ بہت ترقی کی ہے یہی وجہ ہے کہ کبھی مائی ہیر کے دربار، سلطان باہو کے مزار اور تریموں ہیڈ کی آبشار کی وجہ سے پہچانا جانے والا شہرموجودہ دورمیں جگر کے مرغ چھولوں اور انٹرنیشنل فالودے کی وجہ سے اپنی شناخت بنا چکا ہے۔چنیوٹ موڑ کے قریب پنجاب بنک کے سامنے کچھ دن تک ایک بورڈ جلوہ فگن رہا جس پر جھنگ کو CITY OF TRADITIONS یعنی روایات کے شہر سے موسوم کیا گیا تھا خیر جھنگ کو روایات کا شہر کہنا کہاں تک درست ہے یہ تو ایک الگ بحثہے لیکن ایک ٹرک ڈرائیور کو نجانے یہ بات کیوں ناگوار گزری کہ اس نے اس بورڈ کو زمین سے ایسا اکھاڑا کہ اس کے بعد جھنگ کی سب روایات دھری کی دھری رہ گئیں اور کسی نے دوبارہ سے اس بورڈ کو لگانا جھنگ شہر کی روایات کے خلاف سمجھا۔
کسی زمانے میں جھنگ کے لوگوں کو جانگلی سمجھا جاتا تھا اس بدنام زمانہ لقب کے خاتمے کے لیے اہل جھنگ نے مل کر یوسف شاہ رود پر ایک فوڈ سڑ یٹ بنائی ہے اب اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ دہی اور لسی کے ساتھ ناشتہ کرنے والے شہری آج بریڈ پر جیم لگانا سیکھ چکے ہیں، اس میں انھیں یہ آسانی بھی ہے کہ چونکہ بریڈ کا کوئی سیدھا الٹا نہیں ہوتا اس لیے وہ جہاں مرضی چاہیں جیم لگائیں۔ چٹنی اور ساگ کے ساتھ روٹی کھانے والے جوان بریانی اور کباب سے مانوس ہو چکے ہیں اور جدیدیت کی تلاش میں سرگرداں نوجوان آج زنگربرگر،چکن شوارما،ملائی بوٹی اور پیزا جیسی سوغات کھا کر خود کو اکیسویں صدی کے آئن سٹائن سمجھنے لگے ہیں ایسی بھی بات نہیں ہے کہ فوڈ سٹریٹ کے قیام کے بعد اہل جھنگ اپنی پرانی روایات کو بھول چکے ہیں آج بھی کچھ نوجوان مین بازارمیں موجود قربان سویٹ سے دودھ جلیبی کا پیالہ کھاتے ہوئے پائے جاتے ہیں
جھنگ شہر میں تفریحی مقاصد اور زندگی کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہونے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے کسی زمانے میں جھنگ شہر میں ریاض سینما،تصویر محل سینما،فردوس سینمااور تاج محل سینما کے مالکان عوام کے ذوق طبع کی آبیاری کا کام سر انجام دیتے تھے اب تفریح کے یہ مراکز قصہ پارینہ بن چکے ہیں ایسی بھی مایوسی کی بات نہیں کہ جھنگ میں اب تفریح کا کوئی انتظام نہیں پایا جاتا جھنگ کا سب سے بڑا تفریحی مقام جہاز والا پارک ہے۔اس پارک میں صرف ایک ساکن جہاز ہی نہیں بلکہ کئی متحرک جہاز بھی آپ کی تفریح طبع کے لیے موجود ہوتے ہیں۔
انقلاب کے بعد جھنگ شہر پر بھی انقلابی اثرات مرتب ہوئے ہیں ضلعی حکومت نے عوام کے پرزور مطالبے پر سڑکوں کو وسیع کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے اس سلسلے میں جھنگ کی سڑکوں کو کھلا کرنے کا کام زور و شور سے جاری ہے جھنگ کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ جھنگ کو موٹر وے سے ملایا جائے چونکہ جھنگ کو موٹر وے سے ملانا موجودہ حالات میں ممکن نہیں رہا اسی لیے ا سی مطالبے کے پیش نظر اہل جھنگ کی دلی تسکین کی خاطر جھنگ شہرمیں اپنی موٹر وے بنانے کی تیاریاں عروج پر ہیں۔
637