34

قافلہ ابھی شہر سے تھوڑا پیچھے تھا کہ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی اونٹوں پر لدا ہوا سامان تجارت جو کہ کھجوروں اور اناج پر مشتمل تھا بھیگنے لگا . بارش سے محفوظ جگہ پر پہنچتے پہنچتے آدھا مال بھیگ چکا تھا. منڈی میں پہنچ کر تاجروں نے مال اتارنا شروع کیا ان تاجروں میں ایک بہت معصوم چہرے والا انتہائی خوش شکل نوجوان تاجر بھی موجود تھا. اس نوجوان تاجر نے جب اپنا مال اتارا تو اس کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا. خشک کھجوریں اور خشک اناج ایک طرف رکھ دیا اور بھیگی کھجوریں اور اناج علیحدہ کر کے رکھ دیا. جب خرید و فروخت شروع ہوئی تو نوجوان تاجر کے پاس جو خریدار آتا وہ اسے بھیگے مال کا بھاؤ کم بتاتے جب کہ خشک مال کا بھاؤ پورا بتاتے گاھک پوچھتا کہ ایک جیسے مال کا الگ الگ بھاؤ کیوں تو وہ بتاتے کہ مال بھیگنے سے اس کا وزن زیادہ ہوگیا ہے خشک ہونے کے بعد وزن کم ہوجائے گا یہ بددیانتی ہوتی . لوگوں کیلئے یہ نئی بات تھی تھوڑی ہی دیر میں پوری منڈی میں ان کی دیانتداری کا چرچا ہوگیا. لوگ جوک در جوک معصوم صورت والے تاجر کے گرد جمع ہونے لگے. اتنی چھوٹی سی بددیانتی ان کے لئے معمولی بات تھی لیکن جنہوں نے تاجدار انبیا علیہ السلام بننا تھا ان کے لئے یہ بات معمولی کیسے ہوسکتی تھی.
میں اپنے اردگرد لوٹ مار اور نفسا نفسی کا عالم دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کیا ہم سب اسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں جو اتنی معمولی سی بات کو بھی بددیانتی سمجھتے تھے . آج تو ہم خود وزن زیادہ کرنے کیلئے مال میں مٹی اور پتھر تک ملانے سے گریز نہیں کرتے . کس منہ سے قیامت کے دن ان کے حضور پیش ہونگے کیا کبھی سوچا ہم نے ؟؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں