480

امریکی سینیٹر نے پرائیویسی تحفظات پر فیس ایپ کے خلاف تحقیقات کے لیے خط لکھ دیا

چند سال پہلے فیس ایپ کافی مقبول ہوئی تھی، ایک متنازعہ فیچر متعارف کرانے کے بعد اسے کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حال

ہی میں اس کی مقبولیت میں پھراضافہ ہو رہا ہے۔ اس بار تنازعہ اتنا بڑا ہے کہ امریکی سینیٹر کو اس معاملے میں دخل دینا پڑی ہے۔

نیویارک ڈیموکریٹک سینیٹر چُک شومر نے ایف بی آئی اور ایف ٹی سی کو روس کی ڈویلپ کی ہوئی سیلفی ایڈیٹنگ ایپلی کیشن فیس ایپ کےبارے میں پرائیویسی کے حوالے سے تحقیقات کے لیے خط لکھا ہے۔
مبینہ طور پر یہ ایپلی کیشن صارفین کی تصاویر کلاؤڈ سٹوریج پر منتقل کرتی ہے اور انہیں صارفین کی تصاویر اور ڈیٹا تک اتنی زیادہ رسائی ہوتی ہے ، جسے ختم نہ کیا جا سکتا۔
2017 میں روسی سٹارٹ اپ فیس ایپ نے ایک ایسا فلٹر شامل کیا تھا، جس سے صارفین کی رنگت تبدیل ہوجاتی۔

اس فیچر کو نسلی امتیاز کے پھیلاؤ کا ذمہ دار سمجھا گیا اور فیس ایپ پر کافی تنقید ہوئی۔

تنقید کے بعد کمپنی نے ایسے تمام فلٹر ختم کر دئیے۔حال ہی میں یہ ایپ ایک بار پھر مقبول ہو گئی ہے۔ اس ایپ کا عمر بدلنے کا فیچر انٹرنیٹ پر خاصا وائرل ہے۔ صارفین اپنی تصاویر پر بڑھاپے یا جوانی کے فلٹر اپلائی کر کے تصاویر کو سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں۔تاہم اب معلوم ہوا ہے کہ فیس ایپ صارفین کی تصاویر ڈیوائس پر نہیں بلکہ کلاؤڈ پر اپ لوڈ کر کے ان پر فلٹر استعمال کرتی ہے۔

اپنے خط میں سینیٹر شومر نے ایف بی آئی اور ایف ٹی کو لکھا ہے کہ یہ ایپ لاکھوں امریکی صارفین کی پرائیویسی اور امریکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے۔انہوں نے مزید لکھا کہ فیس ایپ کی لوکیشن روس ہونے سے مزید سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کمپنی امریکی شہریوں کا ڈیٹا تھرڈ پارٹیز بشمول غیر ملکی حکومتوں کو تو نہیں دے گی؟
سینیٹر شومر نے ایف بی آئی کو معاملے کی تحقیقات کا کہا ہے اور پوچھا ہے کہ کسی طریقے سے امریکیوں، خاص طور پر امریکی فوجیوں اور حکومتی اہلکاروں کو اس ایپ کے استعمال سے روکا جا سکتا ہے؟ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو انہوں نے ایف ٹی سی سے کہا ہے کہ عوام میں اس ایپ کے استعمال کے حوالے سے شعور بیدار کریں۔

رائٹرز کا کہنا ہے کہ انہیں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے، جس سے صارفین کا ڈیٹا روسی حکومت کو دئیے جانے کا پتا چلتا ہو۔کمپنی نے بتایا کہ وہ کلاؤڈ پر صرف وہ تصاویر اپ لوڈ کرتے ہیں، جن پر فلٹر اپلائی کرنا ہو، یہ ایپ کسی دوسری تصویر کو کلاؤڈ پر ٹرانسفر نہیں کرتی۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ صارفین کی تصاویر کچھ وقت کے لیے سرور پر رہنے دیتے ہیں کیونکہ بہت سے صارفین اپنی تصاویر پر بار بار ایک ہی فلٹر اپلائی کرتے ہیں۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ 48 گھنٹوں میں سرور سے تصاویر ڈیلیٹ کر دیتے ہیں۔فیس ایپ نے بتایا کہ صارفین کا ڈیٹا روس منتقل نہیں کیا جاتا۔ کمپنی کلاؤڈ بیسڈ پروسیسنگ کے لیے ایمزون ویب سروسز اور گوگل کلاؤڈ کو استعمال کرتی ہے۔
فیس ایپ نے بتایا کہ انہیں صارفین کے ڈیٹا تک رسائی حاصل نہیں کیونکہ 99 فیصد صارفین بغیر لاگ ان ہوئے ایپلی کیشن کو استعمال کرتے ہیں۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود صارفین Settings > Support > Report a bug آپشن سے عنوان میں privacy لکھ کر ڈیٹا ختم کرنے کی درخواست دے سکتے ہیں۔
یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ ایف بی آئی اور ایف ٹی سی اس بارے میں کب تحقیقات شروع کریں گی لیکن ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی نے پہلے ہی احتیاطی تدابیر اختیار کرنا شروع کر دی ہیں۔ کمیٹی نے 2020 کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والوں کو یہ ایپ استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے تاکہ 2016 کی طرح کوئی سیکورٹی کا مسئلہ پیدا نہ ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں